میں کیا ہوں کون ہوں یہ بھی خبر نہیں مجھ کو
وہ اس طرح مری ہستی پہ چھائے جاتے ہیں
خیال ہی ابھی آیا تھا کوئے جاناں کا
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
وہ پوچھتے ہیں دل مبتلا کا حال اور ہم
جواب میں فقط آنسو بہائے جاتے ہیں
کہاں ہے شوق بتا غیرت کشش تیری
وہ میری خاک سے دامن بچائے جاتے ہیں
مٹا رہے ہیں وہ کیوں داغہائے دل ہادیؔ
چراغ کیوں یہ جلا کر بجھائے جاتے ہیں
غزل
میں کیا ہوں کون ہوں یہ بھی خبر نہیں مجھ کو (ردیف .. ن)
ہادی مچھلی شہری