میں کسی شوخ کی گلی میں نہیں
زندگی میری زندگی میں نہیں
ہم وفا کی امید کیا رکھیں
کس میں ہوگی جو آپ ہی میں نہیں
کوئی کیسا ہے کوئی کیسا ہے
آدمیت ہر آدمی میں نہیں
تذکرہ ہی وفا کا سنتا ہوں
یہ کسی میں ہے یا کسی میں نہیں
اس کا ملنا ہے اپنے کھونے پر
فی الحقیقت خدا خودی میں نہیں
کس سے پوچھوں کہ رات کیا گزری
اہل بزم اپنے ہوش ہی میں نہیں
وہ گھٹا آسمان پر اٹھی
عذر اب مجھ کو مے کشی میں نہیں
گفتگو ان کی دوستی میں ہے
شک ہمیں ان کی دشمنی میں نہیں
ہے خودی اور بے خودی کچھ اور
بے خودی کا مزہ خودی میں نہیں
کوئی چلمن اٹھائے بیٹھا ہے
کوئی اپنے حواس ہی میں نہیں
غور سے دیکھیے تو سب کچھ ہے
کون سی بات آدمی میں نہیں
یہ بھی ہو وہ بھی ہو تو لطف آئے
کچھ نہیں لاگ اگر لگی میں نہیں
کون سا وصف کون سی خوبی
حضرت نوح نارویؔ میں نہیں
غزل
میں کسی شوخ کی گلی میں نہیں
نوح ناروی