میں کس ورق کو چھپاؤں دکھاؤں کون سا باب
کسی حبیب نے مانگی ہے زندگی کی کتاب
ہمیں نہ بھولنا آلام صد زماں کہ یہاں
ہمیں ہیں مسکن حرماں ہمیں ہیں بیت عذاب
انہی سے شب میں اجالا انہی سے نور خیال
مرے لیے تو بہت کچھ ہیں دیدۂ بے خواب
گیا تھا دشت سے اٹھ کر سمندروں کی طرف
وہاں بھی تشنہ نصیبی وہاں بھی مرگ سراب
پکڑ کے دامن دل یا جھکا کے سر اپنا
دیا ہے خواب شکستہ کا ہر کسی کو حساب
مرے کلام کی تفسیر کے لیے پڑھیے
جمال فکر کی آیت نوائے جاں کی کتاب
وہ آنکھیں پیار کے لہجے میں کہہ رہی تھیں حسنؔ
ہمیں سے مانگ پیالہ ہمیں سے مانگ شراب
ہوا بہار کے موسم میں یوں چلی کہ نعیمؔ
نہ سرخ رو تھا گلستاں نہ سرخ رو تھے گلاب
غزل
میں کس ورق کو چھپاؤں دکھاؤں کون سا باب
حسن نعیم