EN हिंदी
میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا | شیح شیری
main kis ki khoj mein is karb se guzarta raha

غزل

میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا

نثار ناسک

;

میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا
کہ شاخ شاخ پہ کھلتا رہا بکھرتا رہا

مجھے تو اتنی خبر ہے کہ مشت خاک تھا میں
جو چاک مہلت گریہ پہ رقص کرتا رہا

یہ سانس بھر مرے حصے کا خواب کیسا تھا
کہ جس میں اپنے لہو سے میں رنگ بھرتا رہا

عجیب جنگ رہی میری میرے عہد کے ساتھ
میں اس کے جال کو وہ میرے پر کترتا رہا

انہوں نے مجھ کو سمندر ہی دیکھنے نہ دیا
کہ گھر کا گھر ہی مرے ڈوبنے سے ڈرتا رہا