میں کہ خود اپنے ہی اندر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
یعنی کوڑے میں سمندر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
اس عمارت کا مقدر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
جس کی بنیاد میں پتھر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
کوئی لغزش کسی لمحے سے ہوئی تھی شاید
گردش وقت کا محور ہوا ٹکڑے ٹکڑے
چڑھتے سورج کی اترتے ہی کرن آنکھوں میں
میرے ہر خواب کا منظر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
جسم میں پھیل گیا کانچ کے ریزوں کی طرح
کون احساس کے اندر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
یاد اتنا ہے گلے مجھ سے ملا تھا کوئی
پھر مری پشت میں خنجر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
وقت کی دھار پہ لمحوں کے سپاہی کی طرح
میری ہر سانس کا لشکر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
غزل
میں کہ خود اپنے ہی اندر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
رؤف صادق