میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا
پر آشنا کوئی دیکھا نہ مہرباں دیکھا
ہمیشہ منع تو کرتا تھا باغ سے ہم کو
کچھ حال اب گل و گلشن کا باغباں دیکھا
طلب کمال کی کوئی نہ کیجیو زنہار
کہ میں یہ کر کے فضولی بہت زیاں دیکھا
نہ جانے کون سی ساعت چمن سے بچھڑے تھے
کہ آنکھ بھر کے نہ پھر سوئے گلستاں دیکھا
سنے کو دیکھے پہ ہم کس طرح سے دیں ترجیح
خدا تو ہم نے سنا ہے تمہیں بتاں دیکھا
برنگ غنچہ بہار اس چمن کی سنتے تھے
پہ جوں ہی آنکھ کھلی موسم خزاں دیکھا
نہ کہتے تھے تجھے قائمؔ کہ دل کسی کو نہ دے
مزا کچھ اس کا بھلا تو نے اے میاں دیکھا
غزل
میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا
قائم چاندپوری