میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
تو نے تو ہر ذرے کو ضو دی جگمگانے کے لیے
ایک ادنیٰ سے پتنگے نے بنا دی جان پر
شمع نے کوشش تو کی تھی دل جلانے کے لیے
برق خرمن سوزاب رکھنا ذرا چشم کرم
چار تنکے پھر جڑے ہیں آشیانے کے لیے
منہ نہیں ہر ایک کا جو سختی گردوں سہے
کچھ کلیجہ چاہیے وہ زخم کھانے کے لیے
خوب بلبل کو سکھایا نالۂ مستانہ وار
خوب غنچے کو سمجھ دی مسکرانے کے لیے
اس قدر ارزاں ہوئی ہے آج کل جنس کمال
جھوٹے سکے ڈھل رہے ہیں ہر خزانے کے لیے
خواب میں بھی اب نہیں شاعرؔ وہ گرمی کلام
شمع سی اک رہ گئی ہے جھلملانے کے لیے
غزل
میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
آغا شاعر قزلباش