میں خود کو اس لیے منظر پہ لانے والا نہیں
کہ آئنہ مری صورت دکھانے والا نہیں
ترے فلک کا اگر چاند بجھ گیا ہے تو کیا
دیا زمیں پہ بھی کوئی جلانے والا نہیں
سمندروں کی طرف جا رہا ہوں جلتا ہوا
کہ میری آگ کو بادل بجھانے والا نہیں
یہ کون نیند میں آکر سرہانے بیٹھ گیا
میں اپنا خواب کسی کو بتانے والا نہیں
اب اس قدر بھی تکلف سے مل رہے ہو کیوں
تمہارے ساتھ تو رشتہ زمانے والا نہیں
کمر کمان ہوئی جا رہی یوں گوہرؔ
میں جیسے خود کو دوبارہ اٹھانے والا نہیں
غزل
میں خود کو اس لیے منظر پہ لانے والا نہیں
افضل گوہر راؤ