EN हिंदी
میں خود کو ہر اک سمت سے گھیر کر | شیح شیری
main KHud ko har ek samt se gher kar

غزل

میں خود کو ہر اک سمت سے گھیر کر

منموہن تلخ

;

میں خود کو ہر اک سمت سے گھیر کر
کھڑا ہوں پرے خود سے منہ پھیر کر

نہ خود سے بھی ملنے کی جلدی مچا
مری مان تھوڑی بہت دیر کر

میں اپنا ہی مد مقابل ہوں اب
کہوں خود سے لے اب مجھے زیر کر

کہوگے مگر کیا کہ خود کو تو میں
کہیں سے بھی لے آؤں گا گھیر کر

یوں ہی کھو دیا تجھ کو بھی خود کو بھی
کبھی جلدی کر تو کبھی دیر کر

نہیں سانس لینے کا بھی تلخؔ دم
نہ سانسوں کا تو جمع یہ ڈھیر کر