میں خود گیا نہ اس کی ادا لے گئی مجھے
مقتل میں رسم پاس وفا لے گئی مجھے
اندر سے کھوکھلا جو تھا بیلون کی طرح
چاہا جدھر ہوا نے اڑا لے گئی مجھے
اک حرف تھا جو تم نے سنا ان سنا کیا
اب ڈھونڈتے پھرو کہ صدا لے گئی مجھے
ساحل سے میرا پاؤں پھسلنے کی دیر تھی
اک موج بے پناہ بہا لے گئی مجھے
بیٹھا تھا چھپ کے اوس کی ٹھنڈی پھوار میں
آئی کڑکتی دھوپ اٹھا لے گئی مجھے
جاتا کہاں کہ آگے کوئی راستہ نہ تھا
اندھی گپھا میں میری انا لے گئی مجھے
صابرؔ میں ریزہ ریزہ خلا میں بکھر گیا
اتنی بلندیوں پہ ہوا لے گئی مجھے
غزل
میں خود گیا نہ اس کی ادا لے گئی مجھے
نوبہار صابر