میں خامشی کے جزیرے میں ایک پتھر تھا
مگر صداؤں کا ریلا مرا مقدر تھا
نہ جانے کون تھا کس اجنبی سفر پر تھا
وہ قافلے سے الگ قافلے کے اندر تھا
تمام شہر کو اس کا پتہ ملا مجھ سے
وہ آئنے میں تھا پر آئنے سے باہر تھا
وہ جا رہا تھا سمندر کو جھیلنے کے لئے
عرق عرق سر ساحل تمام منظر تھا
کھلا تھا اس کے لئے قصر کا جنوبی در
مگر وہاں کوئی اندر ہی تھا نہ باہر تھا
وہ نرم ریت کے بستر پہ جا کے لیٹ گیا
کھلی جو آنکھ تو چاروں طرف سمندر تھا
گھرا ہوا تھا وہ بد نامیوں کے ہالے میں
حسیں کچھ اور بھی شاہینؔ اس کا پیکر تھا
غزل
میں خامشی کے جزیرے میں ایک پتھر تھا
ولی عالم شاہین