میں خاک ہو رہا ہوں یہاں خاکدان میں
وہ رنگ بھر رہا ہے ادھر آسمان میں
یہ کون بولتا ہے مرے دل کے اندروں
آواز کس کی گونجتی ہے اس مکان میں
پھر یوں ہوا کہ زمزمہ پرداز ہو گئی
وہ عندلیب اور کسی گلستان میں
اڑتی ہے خاک دل کے دریچوں کے آس پاس
شاید مکین کوئی نہیں اس مکان میں
یوں ہی نہیں رکا تھا ذرا دیر کو سفر
دیوار آ گئی تھی کوئی درمیان میں
اک خواب کی تلاش میں نکلا ہوا وجود
شاید پہنچ چکا ہے کسی داستان میں
احمدؔ تراشتا ہوں کہیں بعد میں اسے
تصویر دیکھ لیتا ہوں پہلے چٹان میں
غزل
میں خاک ہو رہا ہوں یہاں خاکدان میں
احمد رضوان