میں کیسے لوٹ کے جاؤں گا اپنے گھر یارو
کے میرے قدموں سے لپٹی ہے رہ گزر یارو
نہ راس آئے گا مجھ کو کوئی شجر یارو
ابھی طویل بہت ہے مرا سفر یارو
ابھی تو شانوں پہ قائم ہے میرا سر یارو
جنوں نہیں ہے ابھی میرا معتبر یارو
ستم تو دیکھیے پرواز کی دعا دے کر
کتر رہا ہے کوئی میرے بال و پر یارو
وہ ایک لمحہ کہ جو حاصل حیات بنے
تلاش کرتا ہے انسان عمر بھر یارو
میں آسماں ہوں بلندی مقام ہے میرا
جھکائے پھرتا ہوں پھر بھی میں اپنا سر یارو
تمام عمر کا حاصل ہنسی گھڑی بھر کی
کہاں سے لائے کوئی پھول کا جگر یارو

غزل
میں کیسے لوٹ کے جاؤں گا اپنے گھر یارو
خواجہ جاوید اختر