میں کہا تھا کبھی سے یہ کچھ ہے
جس کا عالم ابھی سے یہ کچھ ہے
جائے شکوہ نہیں سلوک اس کا
دیکھتا ہوں سبھی سے یہ کچھ ہے
جب سے دیکھا ہے تجھ کو اب تو کیا
حالت دل تبھی سے یہ کچھ ہے
ہم نے جانا سخن کی شیرینی
اس کی شکر لبی ہی سے یہ کچھ ہے
دن کو تو خیر تھی حسنؔ پر کچھ
بے قراری شب ہی سے یہ کچھ ہے
غزل
میں کہا تھا کبھی سے یہ کچھ ہے
میر حسن