EN हिंदी
میں کہہ رہا ہوں سر عام برملا بابا | شیح شیری
main kah raha hun sar-e-am barmala baba

غزل

میں کہہ رہا ہوں سر عام برملا بابا

اشرف علی اشرف

;

میں کہہ رہا ہوں سر عام برملا بابا
گمان ہے بھرے میلے میں کھو گیا بابا

کڑی ہے دھوپ تمازت سے پاؤں جلتے ہیں
جو سائبان سروں پر تھا کیا ہوا بابا

ذرا سی بات پہ آنکھیں برسنے لگتی ہیں
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں گا حوصلہ بابا

تمہارے بعد تو لمحے نہیں گزرتے ہیں
ابھی تو عمر کا باقی ہے مرحلہ بابا

بس ایک عمر بچی ہے تمہاری یاد لیے
اب اپنے پاس بچا بھی ہے اور کیا بابا

رکی جو سانس تمہاری بدل گئی دنیا
کہاں وہ ربط کسی سے جو پہلے تھا بابا

میں تین پہر سے بیٹھا ہوا ہوں قبر کے پاس
اب اپنے کرب سمیٹو کہ میں چلا بابا

اگر ستایا زمانے نے زہر کھا لوں گا
تمہارا بیٹا ہے اشرفؔ بھی سر پھرا بابا