میں جو ٹھہرا ٹھہرتا چلا جاؤں گا
یا زمیں میں اترتا چلا جاؤں گا
جس جگہ نور کی بارشیں تھم گئیں
وہ جگہ تجھ سے بھرتا چلا جاؤں گا
درمیاں میں اگر موت آ بھی گئی
اس کے سر سے گزرتا چلا جاؤں گا
تیرے قدموں کے آثار جس جا ملے
اس ہتھیلی پہ دھرتا چلا جاؤں گا
دور ہوتا چلا جاؤں گا دور تک
پاس ہی سے ابھرتا چلا جاؤں گا
روشنی رکھتا جائے گا تو ہاتھ پر
اور میں تحریر کرتا چلا جاؤں گا

غزل
میں جو ٹھہرا ٹھہرتا چلا جاؤں گا
عتیق اللہ