میں جو اپنے حال سے کٹ گیا تو کئی زمانوں میں بٹ گیا
کبھی کائنات بھی کم پڑی کبھی جسم و جاں میں سمٹ گیا
یہی حال ہے کئی سال سے نہ قرار دل نہ سکون جاں
کبھی سانس غم کی الٹ گئی کبھی رشتہ درد سے کٹ گیا
مری جیتی جاگتی فصل سے یہ سلوک باد سموم کا
مری کشت فکر اجڑ گئی مرا ذہن کانٹوں سے پٹ گیا
نہ دیار درد میں چین ہے نہ سکون دشت خیال میں
کبھی لمحہ بھر کو دھواں چھٹا تو غبار راہ میں اٹ گیا
نہ وہ آرزو نہ وہ جستجو نہ وہ رنگ جامۂ بے رفو
بھلا اس وجود کا وزن کیا جو مدار شوق سے ہٹ گیا
نہ وہ کیف شب نہ وہ ماہ شب نہ وہ کاروان غزال شب
جہاں ذکر ہجر و وصال تھا وہ ورق ہی کوئی الٹ گیا

غزل
میں جو اپنے حال سے کٹ گیا تو کئی زمانوں میں بٹ گیا
حنیف اسعدی