میں جس ارادے سے جا رہی ہوں اسی ارادے سے لڑ پڑوں گی
مرے سپاہی کو کچھ ہوا تو میں شاہزادے سے لڑ پڑوں گی
یہ کھیل شاہوں کے مرتبے کا ہدف بنیں گے ہمارے مہرے
میں بے بسی میں شکست کھائے ہوئے پیادے سے لڑ پڑوں گی
میں اپنی بستی کی کچی گلیوں سے عشق کرتی ہوں یاد رکھنا
اگر جو اچھا برا کہے گا امیر زادے سے لڑ پڑوں گی
اسیر-نقش و نگار مجھ سے نہیں سنبھلتا یہ چاک ہستی
میں تھک گئی تو بکھرتی مٹی سے اور برادے سے لڑ پڑوں گی
یہ صبر کب تک نبھائے جاؤں میں خود سے نظریں چرائے جاؤں
جو شام ہجراں نے جان کھائی ہر ایک وعدے سے لڑ پڑوں گی

غزل
میں جس ارادے سے جا رہی ہوں اسی ارادے سے لڑ پڑوں گی
کومل جوئیہ