میں جیسا بھی ہوں تیرے سامنے ہوں
جو دنیا ہے وہ دے دے سامنے ہوں
تری دنیا ہے تو ہر چیز میں ہے
جہاں بھی ہوں میں تیرے سامنے ہوں
ابھی دن ہے بتا کیا چاہتا ہے
ابھی زندہ ہوں تیرے سامنے ہوں
فلک کی جگمگاتی چھت ہے سر پر
میں حیراں ہوں کہ کس کے سامنے ہوں
ہوا چلتی ہے یا گاتا ہے کوئی
وہ کون ایسا ہے کس کے سامنے ہوں
مجھے تو شرم آتی ہے یہ کہتے
میں پیاسا ہوں تمہارے سامنے ہوں
غزل
میں جیسا بھی ہوں تیرے سامنے ہوں
خلیل رامپوری