EN हिंदी
میں جیسا بھی ہوں تیرے سامنے ہوں | شیح شیری
main jaisa bhi hun tere samne hun

غزل

میں جیسا بھی ہوں تیرے سامنے ہوں

خلیل رامپوری

;

میں جیسا بھی ہوں تیرے سامنے ہوں
جو دنیا ہے وہ دے دے سامنے ہوں

تری دنیا ہے تو ہر چیز میں ہے
جہاں بھی ہوں میں تیرے سامنے ہوں

ابھی دن ہے بتا کیا چاہتا ہے
ابھی زندہ ہوں تیرے سامنے ہوں

فلک کی جگمگاتی چھت ہے سر پر
میں حیراں ہوں کہ کس کے سامنے ہوں

ہوا چلتی ہے یا گاتا ہے کوئی
وہ کون ایسا ہے کس کے سامنے ہوں

مجھے تو شرم آتی ہے یہ کہتے
میں پیاسا ہوں تمہارے سامنے ہوں