میں جہاں جاؤں مرے ساتھ چلے سناٹا
میری آنکھوں میں لگاتار جلے سناٹا
صبح آتی ہے دبے پاؤں چلی جاتی ہے
گھیر لیتا ہے مجھے شام ڈھلے سناٹا
بھاگتی بھیڑ کے قدموں سے لپٹ کر روئے
ورنہ ہر سست مسافر کو چھلے سناٹا
تم خیالات کے خیموں میں سمٹ مت جانا
جب سر راہ کبھی ہاتھ ملے سناٹا
پھر مرے شہر میں لوٹ آئی ہے دہشت گردی
پھر ہر اک جسم کے سائے میں پلے سناٹا
اب مکانوں کی چھتوں کا بھی نظارہ کر لو
گنگناتا ہے ستاروں کے تلے سناٹا
آج کل ان کے ٹھکانوں میں بڑی ہلچل ہے
کاش میرے بھی شبستاں سے ٹلے سناٹا

غزل
میں جہاں جاؤں مرے ساتھ چلے سناٹا
چندر بھان خیال