EN हिंदी
میں جب بھی کوئی منظر دیکھتا ہوں | شیح شیری
main jab bhi koi manzar dekhta hun

غزل

میں جب بھی کوئی منظر دیکھتا ہوں

جہانگیر نایاب

;

میں جب بھی کوئی منظر دیکھتا ہوں
ذرا اوروں سے ہٹ کر دیکھتا ہوں

کبھی میں دیکھتا ہوں اس کی رحمت
کبھی میں اپنی چادر دیکھتا ہوں

نظر کا زاویہ بدلا ہے جب سے
میں کوزے میں سمندر دیکھتا ہوں

کبھی میرے لیے تھے پھول جن میں
اب ان ہاتھوں میں پتھر دیکھتا ہوں

سبھی ہیں مبتلائے خود فریبی
عجب دنیا کا منظر دیکھتا ہوں

نہیں بدلاؤ کے آثار کچھ بھی
ابھی حالات ابتر دیکھتا ہوں

مقدر میں لکھی ویرانیوں میں
ذرا سا رنگ بھر کر دیکھتا ہوں

نظر آتا ہے مدفن خواہشوں کا
کبھی جب اپنے اندر دیکھتا ہوں

سنا ہے آگ ہے اس کا سراپا
چلو باہوں میں بھر کر دیکھتا ہوں

بصیرت مجھ میں ہے نایابؔ ایسی
میں ہر قطرے میں گوہر دیکھتا ہوں