EN हिंदी
میں جانتا ہوں کون ہوں میں اور کیا ہوں میں | شیح شیری
main jaanta hun kaun hun main aur kya hun main

غزل

میں جانتا ہوں کون ہوں میں اور کیا ہوں میں

عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی

;

میں جانتا ہوں کون ہوں میں اور کیا ہوں میں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ اک پارسا ہوں میں

اب مجھ میں اور تجھ میں کوئی فاصلہ نہیں
تو میرا مدعا ہے ترا مدعا ہوں میں

واعظ جبین شوق جھکے تو کہاں جھکے
نقش قدم ہی ان کے ابھی ڈھونڈھتا ہوں میں

دل کو تجلیات کا مرکز بنا لیا
اب ان کا نام لینے کے قابل ہوا ہوں میں

ناصح تری نگاہ میں بادہ پرست ہوں
میکش سمجھ رہے ہیں بڑا پارسا ہوں میں

فرصت ملے کشاکش دنیا سے تو کہوں
کس وہم کس گمان میں الجھا ہوا ہوں میں

اہل خرد کی عقل پہنچتی نہیں جہاں
وصفیؔ جنوں میں ایسی جگہ آ گیا ہوں میں