میں ہوں ظالم کی آن بان سے خوش
ورنہ ہے کون آسمان سے خوش
ناخوشی کا خیال تھا لیکن
وہ ہوے میری داستان سے خوش
اس طرح بس میں آ گیا کوئی
کر لیا میں نے پھول پان سے خوش
اس قدر غم ہے میرے قاتل کو
جس قدر میں ہوں امتحان سے خوش
خاک پہنچے گا وہ سر منزل
جو مسافر ہوا تکان سے خوش
ایک کو جھڑکی ایک کو دھمکی
کون ہے آپ کی زبان سے خوش
چھوڑ کر دل کو درد جائے کہاں
یہ مکیں ہے اسی مکان سے خوش
پاس کوئی پہنچ نہیں سکتا
اس لئے ہیں وہ پاسبان سے خوش
جان و دل دونوں آپ لے جائیں
میں ہوں سو دل ہزار جان سے خوش
ساقیٔ مے فروش رہتا ہے
اپنی چلتی ہوئی دکان سے خوش
نوحؔ کو چین عمر بھر نہ ملا
کیا ہوں وہ اپنے امتحان سے خوش
غزل
میں ہوں ظالم کی آن بان سے خوش
نوح ناروی