میں ہوں تیرے لیے بے نام و نشاں آوارہ
زندگی میرے لیے تو ہے کہاں آوارہ
تجھ سے کٹ کر کوئی دیکھے تو کہاں پہنچا ہوں
جیسے ندی میں کوئی سنگ رواں آوارہ
تجھ کو دیکھا ہے کہیں تجھ کو کہاں دیکھا ہے
وہم ہے سر بہ گریباں و گماں آوارہ
دیر و کعبہ کی روایات سے انکار نہیں
آؤ دو دن تو پھریں نعرہ زناں آوارہ
تیرے دامن کی طرح دامن شب رخشندہ
میرے اشکوں کی طرح کون و مکاں آوارہ
جلتے بجھتے ہیں ہر اک گام پہ تابندہ نجوم
کوئی ہے آج سر کاہکشاں آوارہ
بھیگی راتوں میں ظفرؔ پھرتا ہے تنہا تنہا
آہ وہ سوختہ دل سوختہ جاں آوارہ
غزل
میں ہوں تیرے لیے بے نام و نشاں آوارہ
یوسف ظفر