میں ہوں میری چشم تر ہے رات ہے تنہائی ہے
درد میرا ہم سفر ہے رات ہے تنہائی ہے
جگنوؤں سے ساتھ چلنے کی گزارش کیجیے
ہجر کا لمبا سفر ہے رات ہے تنہائی ہے
پھر وہی یادیں وہی آنسو وہی آہ و فغاں
پھر وہی دیوار و در ہے رات ہے تنہائی ہے
دوستوں کی بھیڑ کو مصروفیت میں کھو دیا
آج فرصت بام پر ہے رات ہے تنہائی ہے
تجھ کو پانے کے جنوں میں ہم وہاں تک آ گئے
خود کو اب کھونے کا ڈر ہے رات ہے تنہائی ہے

غزل
میں ہوں میری چشم تر ہے رات ہے تنہائی ہے
رازق انصاری