EN हिंदी
میں ہوں میری چشم تر ہے رات ہے تنہائی ہے | شیح شیری
main hun meri chashm-e-tar hai raat hai tanhai hai

غزل

میں ہوں میری چشم تر ہے رات ہے تنہائی ہے

رازق انصاری

;

میں ہوں میری چشم تر ہے رات ہے تنہائی ہے
درد میرا ہم سفر ہے رات ہے تنہائی ہے

جگنوؤں سے ساتھ چلنے کی گزارش کیجیے
ہجر کا لمبا سفر ہے رات ہے تنہائی ہے

پھر وہی یادیں وہی آنسو وہی آہ و فغاں
پھر وہی دیوار و در ہے رات ہے تنہائی ہے

دوستوں کی بھیڑ کو مصروفیت میں کھو دیا
آج فرصت بام پر ہے رات ہے تنہائی ہے

تجھ کو پانے کے جنوں میں ہم وہاں تک آ گئے
خود کو اب کھونے کا ڈر ہے رات ہے تنہائی ہے