میں ہوں اور سلسلۂ اشک رواں آج کی رات
زندگی ہے ہمہ تن سوز بجاں آج کی رات
دیدۂ شوق میں ہے رقص کناں آج کی رات
غم کی بجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں آج کی رات
اپنی پلکوں پہ لرزتے ہوئے تاروں کی قسم
سب کے ہونٹوں پہ ہے فریاد و فغاں آج کی رات
ہیں کہاں آہ وہ حوران تصور جن سے
دل تھا غیرت دہ گلزار جناں آج کی رات
سامنے کوئی نہیں روح نواز دل و جاں
زندگانی کی تمنا ہے گراں آج کی رات
چاندنی رات کے چہرے پہ ہے کیوں غم کا غبار
دھندلی دھندلی سی ہے کیوں کاہکشاں آج کی رات
وہ نہیں ہیں تو مقدر میں ہیں میرے منظورؔ
ماتم مرگ تمنائے جواں آج کی رات
غزل
میں ہوں اور سلسلۂ اشک رواں آج کی رات
ملک زادہ منظور احمد