میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں
تیرا بندہ ہوں اے خدا کچھ ہوں
جزو و کل کو نہیں سمجھتا میں
دل میں تھوڑا سا جانتا کچھ ہوں
تجھ سے الفت نباہتا ہوں میں
باوفا ہوں کہ بے وفا کچھ ہوں
جب سے ناآشنا ہوں میں سب سے
تب کہیں اس سے آشنا کچھ ہوں
نشۂ عشق لے اڑا ہے مجھے
اب مزے میں اڑا رہا کچھ ہوں
خواب میرا ہے عین بیداری
میں تو اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں
گرچہ کچھ بھی نہیں ہوں میں لیکن
اس پہ بھی کچھ نہ پوچھو کیا کچھ ہوں
سمجھے وہ اپنا خاکسار مجھے
خاک رہ ہوں کہ خاک پا کچھ ہوں
چشم الطاف فخر دیں سے ہوں
اے ظفرؔ کچھ سے ہو گیا کچھ ہوں
غزل
میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں
بہادر شاہ ظفر