میں ہرے موسموں میں جلتا رہا
خوشبوؤں سے دھواں نکلتا رہا
آگ پر ہونٹ رکھ دیے تھے کبھی
آخری سانس تک پگھلتا رہا
میں اکیلا بھی کارواں کی طرح
راستوں کے بغیر چلتا رہا
حادثے مجھ کو پیش آتے رہے
اور زمانے کا جی بہلتا رہا
میری آواز منحرف نہ ہوئی
وقت کا فیصلہ بدلتا رہا
زندگی مجھ کو قتل کرتی رہی
موت کی وادیوں میں پلتا رہا
کاروبار سخن کیا میں نے
یا مظفرؔ لہو اگلتا رہا
غزل
میں ہرے موسموں میں جلتا رہا
مظفر وارثی