میں ہر بے جان حرف و لفظ کو گویا بناتا ہوں
کہ اپنے فن سے پتھر کو بھی آئینہ بناتا ہوں
میں انساں ہوں مرا رشتہ براہیمؔ اور آزرؔ سے
کبھی مندر کلیسا اور کبھی کعبہ بناتا ہوں
مری فطرت کسی کا بھی تعاون لے نہیں سکتی
عمارت اپنے غم خانے کی میں تنہا بناتا ہوں
نہ جانے کیوں ادھوری ہی مجھے تصویر جچتی ہے
میں کاغذ ہاتھ میں لےکر فقط چہرہ بناتا ہوں
مری خواہش کا کوئی گھر خدا معلوم کب ہوگا
ابھی تو ذہن کے پردے پہ بس نقشہ بناتا ہوں
میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں سدا اخلاق کا پارس
اسی پتھر سے مٹی چھو کے میں سونا بناتا ہوں
غزل
میں ہر بے جان حرف و لفظ کو گویا بناتا ہوں
انور جلال پوری