میں ہم نفس ہوں مجھے رازداں بھی کرنا تھا
جو تجھ پہ بیت رہی ہے بیاں بھی کرنا تھا
عطا کیا تھا مکاں کس لیے اگر مجھ کو
تمام شہر میں بے خانماں بھی کرنا تھا
ترے خیال کی سرحد سے بھی پرے جو تھا
مجھے عبور وہ دشت زیاں بھی کرنا تھا
تو کیا وہ موسم شورش میں ہی یہ بھول گئے
بحال شہر میں امن و اماں بھی کرنا تھا
اس آفتاب کو اپنی ردا اتارنی تھی
ہمارے چشمۂ خوں کو رواں بھی کرنا تھا
بنا دیا در و دیوار خامشی سے اگر
تو پھر مکاں کو مرے لا مکاں بھی کرنا تھا

غزل
میں ہم نفس ہوں مجھے رازداں بھی کرنا تھا
شفق سوپوری