میں گھر سے ذہن میں کچھ سوچتا نکل آیا
سڑک پہ خوف کا اک سلسلہ نکل آیا
وہ ایک درد شگفتہ گلاب ہو کر بھی
بدن پہ زخم سا جیسے نیا نکل آیا
سلگتی دھوپ نے اس درجہ کر دیا بے تاب
مجھی سے سایہ میرا ہانپتا نکل آیا
سفید پوشوں کی توقیر کے تحفظ میں
ہمارے شہر کا طبقہ بڑا نکل آیا
مجھے وہ رکھتا ہے مصروف کس نزاکت سے
کہ غم سے رشتہ مرا دوسرا نکل آیا
وہ ایک لمس تھا اس کا حیات کا ضامن
چھوا جو پیڑ تو پتہ ہرا نکل آیا
غزل
میں گھر سے ذہن میں کچھ سوچتا نکل آیا
حسن نظامی