میں گھر سے دور اطاق بدن میں رہتا ہوں
سواد ہجر کے باب کہن میں رہتا ہوں
کہیں تو رہنا ہے جب تک ملا ہے اذن قیام
سو حرف و صوت کے شہر سخن میں رہتا ہوں
میں عکس ہوں ترے پیراہن گل و مل کا
میں ایک رنگ ہوں برگ سمن میں رہتا ہوں
کبھی ہوں زلف کی ژولیدگی میں وارفتہ
کبھی میں تیری جبیں کی شکن میں رہتا ہوں
مثال بوسۂ دوشیزگان شہر جمال
ترے لبوں کے گلابی چمن میں رہتا ہوں
میان چشم زدن ڈھونڈھ مجھ کو پلکوں میں
کہیں نہیں ہوں طلسم زدن میں رہتا ہوں
جہاں سے تو نے نکالا مرے اب و جد کو
میں آج بھی اسی باغ عدن میں رہتا ہوں
وحی ہوا ہوں غزال صفا کے نافہ میں
میں مشک لا ہوں ہوائے ختن میں رہتا ہوں
ہے پنجند کی گزر گاہ میرا نصف خیال
میں نصف وادیٔ گنگ و جمن میں رہتا ہوں
زمین میرے لیے سیرگاہ ہے مسعودؔ
میں شمس زاد ہوں نیلے گگن میں رہتا ہوں
غزل
میں گھر سے دور اطاق بدن میں رہتا ہوں
مسعود منور