EN हिंदी
میں غرق وہاں پیاس کے پیکر کی طرح تھا | شیح شیری
main gharq wahan pyas ke paikar ki tarah tha

غزل

میں غرق وہاں پیاس کے پیکر کی طرح تھا

گہر خیرآبادی

;

میں غرق وہاں پیاس کے پیکر کی طرح تھا
ہر قطرہ جہاں ایک سمندر کی طرح تھا

گھر سارے شکستہ تھے گذر گاہیں اندھیری
کچھ شہر مرا میرے مقدر کی طرح تھا

آج اس کا جہاں میں کوئی پرساں ہی نہیں ہے
کل تک جو زمانے میں سکندر کی طرح تھا

تھا اس کے مقدر میں لکھا ڈوبنا ڈوبا
حالانکہ وہ دریا میں شناور کی طرح تھا

کیا میری حقیقت تھی گلستاں میں نہ پوچھو
میں تھا مگر اک طائر بے پر کی طرح تھا

جب شہر میں پتھر ہی کی تھی عمر گنوائی
دنیا میں تجھے جینا بھی آذر کی طرح تھا

دل کے بھی زمانے میں بدلتے رہے انداز
دریا کی طرح تھا کبھی پتھر کی طرح تھا

دنیائے ادب میں سبھی کہتے ہیں جسے میرؔ
اک لفظ و معانی کے سمندر کی طرح تھا

راس آئی گہرؔ خوب مجھے دشت نوردی
ہر آبلۂ پا مرا گوہر کی طرح تھا