EN हिंदी
میں غرق ہو گیا ہوں خود اپنے وجود میں | شیح شیری
main gharq ho gaya hun KHud apne wajud mein

غزل

میں غرق ہو گیا ہوں خود اپنے وجود میں

جہانگیر نایاب

;

میں غرق ہو گیا ہوں خود اپنے وجود میں
اور خود کو ڈھونڈھتا ہوں خود اپنے وجود میں

عادت سی پڑ گئی ہے جو تنقیص کی مجھے
کیڑے نکالتا ہوں خود اپنے وجود میں

کچھ اس طرح سے ڈھائے ہیں حالات نے ستم
گم ہو کے رہ گیا ہوں خود اپنے وجود میں

جیسے مرے ہی جسم کا حصہ ہو تم کوئی
میں تم کو ڈھونڈھتا ہوں خود اپنے وجود میں

ہر نقص دیکھتا ہوں خود اپنے وجود کا
میں ایک آئنہ ہوں خود اپنے وجود میں

قائم ہے مجھ میں میرے تخیل کی سلطنت
بے تاج بادشہ ہوں خود اپنے وجود میں

نایابؔ انقلاب زمانہ کی ہے دلیل
بدلاؤ دیکھتا ہوں خود اپنے وجود میں