میں غار میں تھا اور ہوا کے بغیر تھا
اک روز آفتاب ضیا کے بغیر تھا
ساحل پہ آ کے ڈوب گئی ناؤ اپنے آپ
اک شخص اس میں اپنی رضا کے بغیر تھا
سب رو رہے تھے خوف کی دیوار سے لگے
کہرام تھا کہ صوت و صدا کے بغیر تھا
کیوں نقش پا تمام کسی دائرے میں تھے
یہ کون تھا جو دست دعا کے بغیر تھا
فیصلؔ جو شہر آپ ہی مسمار ہو گیا
کیا علم کب سے حمد و ثنا کے بغیر تھا
غزل
میں غار میں تھا اور ہوا کے بغیر تھا
فیصل عجمی