میں ایک رات محبت کے سائبان میں تھا
مرا تمام بدن روح کی کمان میں تھا
دھنک جلی تھی فضا خون سے منور تھی
مرے مزاج کا اک رنگ آسمان میں تھا
جو سوچتا ہوں اسے دل میں پھول کھلتے ہیں
وہ خوش نگاہ نہیں تھا تو کون دھیان میں تھا
یہ حادثہ ہے کہ دونوں خزاں سرشت ہوئے
مگر بہار کا اک عہد درمیان میں تھا
مجھے عزیز رہی دشمنی کی تلخی بھی
اس ایک زہر سے کیا ذائقہ زبان میں تھا
غزل
میں ایک رات محبت کے سائبان میں تھا
ساقی فاروقی