میں دعا مانگوں تو دل مجھ سے خفا ہو جائے گا
سر جھکا تو سر کو سجدوں کا نشہ ہو جائے گا
خواہشوں کے ڈوبتے سورج نے بتلایا نہ تھا
میرا سایہ میرے قد سے بھی بڑا ہو جائے گا
یا تو مجھ سے چھین لو یہ بت تراشی کا ہنر
ورنہ میں جو بت تراشوں تو خدا ہو جائے گا
گفتگو میں ضبط لازم ہے ذرا سی چوک پر
لب پہ آ کے حرف حرف مدعا ہو جائے گا
یہ مجھے معلوم کب تھا خواہشوں کی بھیڑ میں
میرا اک اک سانس جینے کی سزا ہو جائے گا
میرے درد و کرب کی پرچھائیاں چہرے پہ ہیں
میں یہ آنسو روک بھی لوں گا تو کیا ہو جائے گا
بات تو جرم و سزا کی ہے مگر محشر کے دن
کچھ نہ کچھ اس سے ہمارا فیصلہ ہو جائے گا

غزل
میں دعا مانگوں تو دل مجھ سے خفا ہو جائے گا
اوم کرشن راحت