میں دیار قاتلاں کا ایک تنہا اجنبی
ڈھونڈھنے نکلا ہوں خود اپنے ہی جیسا اجنبی
آشناؤں سے سوال آشنائی کر کے دیکھ
پھر پتہ چل جائے گا ہے کون کتنا اجنبی
ڈوبتے ملاح تنکوں سے مدد مانگا کیے
کشتیاں ڈوبیں تو تھی ہر موج دریا اجنبی
مل جو مجھ کو عافیت کی بھیک دینے آئے تھے
کس سے پوچھوں کون تھے وہ آشنا یا اجنبی
بے مروت شہریوں نے فاصلے کم کر دیے
ورنہ پہلے شہر کو لگتا تھا صحرا اجنبی
یہ منافق روپ کب سے میری عادت بن گیا
میرے چہرے سے ہے کیوں میرا سراپا اجنبی
غزل
میں دیار قاتلاں کا ایک تنہا اجنبی
طالب جوہری