میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے
اک قہقہہ لگایا گزرتی بہار نے
گزرا ہوں جب سلگتے ہوئے نقش چھوڑتا
دیکھا ہے مجھ کو غور سے ہر رہ گزار نے
میکش نے جام زہر ہی منہ سے لگا لیا
پاگل بنا دیا جو نشے کے اتار نے
انسان حد نور سے آگے نکل گیا
چھوڑا مگر نہ اس کو لہو کی پکار نے
ان مہ رخوں کی ہم سے جو یہ بے رخی رہی
جانا پڑے گا چاند پہ کچھ دن گزارنے
کرتے ہیں وہ ستارے بھی اب مجھ پہ چشمکیں
چمکا دیا جنہیں مری شب ہائے تار نے
ان گل کدوں کو بھی کوئی اے کاش دیکھتا
جھلسا ہے جن کو آتش فصل بہار نے
لاؤں کہاں سے ان کے لیے اور غم گسار
جو غم دئے ہیں مجھ کو مرے غم گسار نے
میری سرشت میں تھی محبت کی پرورش
مجھ کو قلم دیا مرے پروردگار نے
بخشا ہے اپنے حسن کا پرتو مجھے کرمؔ
فطرت کے ہر جمیل و حسیں شاہکار نے

غزل
میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے
کرم حیدری