میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے
مرے پروں کو ہوا کیا اڑان سے پہلے
مرے نصیب میں رستوں کی دھول لکھی تھی
نہ مل سکی مجھے منزل تکان سے پہلے
یہ کون شخص تھا چالاک کس قدر نکلا
کہ بات چھیڑ گیا درمیان سے پہلے
میں اس کے درد کا درماں تو جانتا تھا مگر
وہ کچھ تو بولتا اپنی زبان سے پہلے
تم اس کے گھر کی طرف چل پڑے تو ہو لیکن
کوئی پڑاؤ نہیں آسمان سے پہلے
کھڑا ہوں آج میں انجمؔ یقیں کی سرحد پر
عجیب کرب میں گم تھا گمان سے پہلے
غزل
میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے
آنند سروپ انجم