EN हिंदी
میں بچھڑ کر تجھ سے تیری روح کے پیکر میں ہوں | شیح شیری
main bichhaD kar tujhse teri ruh ke paikar mein hun

غزل

میں بچھڑ کر تجھ سے تیری روح کے پیکر میں ہوں

آزاد گلاٹی

;

میں بچھڑ کر تجھ سے تیری روح کے پیکر میں ہوں
تو مری تصویر ہے میں تیرے پس منظر میں ہوں

اپنا مرکز ڈھونڈتا ہوں دائروں میں کھو کے میں
کتنے جنموں سے میں اک محدود سے چکر میں ہوں

خود ہی دستک دے رہا ہوں اپنے در پر دیر سے
گھر سے باہر رہ کے بھی جیسے میں اپنے گھر میں ہوں

میں وہ آذر ہوں جسے برسوں رہی اپنی تلاش
خود ہی مورت بن کے پوشیدہ ہر اک پتھر میں ہوں

دیکھنے والے مجھے میری نظر سے دیکھ لے
میں تری نظروں میں ہوں اور میں ہی ہر منظر میں ہوں

گونجتا ہوں اپنے اندر اور کھو جاتا ہوں میں
اک صدا بن کر انا کے گنبد بے در میں ہوں

میں کبھی اک جھیل تھا پھیلے ہوئے صحراؤں میں
آج میں اک پیاس کا صحرا ہوں اور ساگر میں ہوں

موت کو آزادؔ یہ عرفان دینا ہے مجھے
کاٹتی ہے مجھ کو جس سے وہ میں اس خنجر میں ہوں