میں بھی مشکل سے اٹھا رشک بھی مشکل سے اٹھا
دل وہیں بیٹھ گیا جب تری محفل سے اٹھا
تیری محفل کے علاوہ کوئی عالم ہی نہیں
وہ کہیں کا نہ رہا جو تری محفل سے اٹھا
مشکلیں میری محبت کی الٰہی توبہ
ان کے کوچے سے جنازہ بھی تو مشکل سے اٹھا
آپ میں آنے کی پھر کوئی جہت ہی نہ رہی
میں تری بزم سے جب تیرے مقابل سے اٹھا
عین دریا کا تلاطم تو رہا ساحل تک
ہو گیا قہر وہ طوفان جو ساحل سے اٹھا
ڈگمگانا تھا ادھر پائے طلب کا بسمل
شور لبیک ادھر جانب منزل سے اٹھا
غزل
میں بھی مشکل سے اٹھا رشک بھی مشکل سے اٹھا
بسمل سعیدی