میں بھی حضور یار بہت دیر تک رہا
آنکھوں میں پھر خمار بہت دیر تک رہا
کل شام میرے قتل کی تاریخ تھی مگر
دشمن کا انتظار بہت دیر تک رہا
اب لے چلا ہے دشت میں میرا جنوں مجھے
اس جن پہ اختیار بہت دیر تک رہا
وہ انکشاف ذات کا لمحہ تھا کھل گیا
شاید درون غار بہت دیر تک رہا
اب دیکھتے ہو کوئی سہارا ملے تمہیں
میں بھی تو اشکبار بہت دیر تک رہا
تم مصلحت کہو یا منافق کہو مجھے
دل میں مگر غبار بہت دیر تک رہا
میں خاک آسماں کی بلندی کو دیکھتا
اپنوں پہ اعتبار بہت دیر تک رہا
الزام خود سری بھی تو ثابت کیا گیا
میں جب کہ خاکسار بہت دیر تک رہا
ساحلؔ مری بلا سے مرا حشر ہوگا کیا
دنیا میں باوقار بہت دیر تک رہا
غزل
میں بھی حضور یار بہت دیر تک رہا
خالد ملک ساحلؔ