میں بھی آوارہ ہوں تیرے سات آوارہ ہوا
لا تو میرے ہاتھ میں دے ہات آوارہ ہوا
جنگلی پھولوں کی خوشبو رقص سرشاری شباب
نذر کر مجھ کو بھی کچھ سوغات آوارہ ہوا
ایک سرشاری ہے جسم و روح پر چھائی ہوئی
ریزہ ریزہ آسماں برسات آوارہ ہوا
اس خرابے میں بھی اک جنت بنا لی ہے جہاں
ایک میں ہوں اک خدا کی ذات آوارہ ہوا
یاد آتا ہے کپاسی بادلوں کا سائباں
جگمگاتے منظروں کی رات آوارہ ہوا
بے پناہی ذہن کی قندیل دانش بھی سیاہ
رو بہ رو حد نظر ظلمات آوارہ ہوا
دل کے دروازے سے لگ کر چپ کھڑا رہتا ہے غم
کس سے کہئے اپنے جی کی بات آوارہ ہوا
سرکشی زندہ رہے لیکن مجیبیؔ سوچ لے
ایک مشت خاک کی اوقات آوارہ ہوا
غزل
میں بھی آوارہ ہوں تیرے سات آوارہ ہوا
صدیق مجیبی