میں بھی آگے بڑھوں اور بھیڑ کا حصہ ہو جاؤں
اس سے اچھا تو یہی ہے کہ میں تنہا ہو جاؤں
پیاس کو میری جو اک جام نہ دے پایا کبھی
تشنگی اس کی یہ کہتی ہے میں دریا ہو جاؤں
مجھ کو جکڑے ہوئے رشتوں کی حقیقت مت پوچھ
بس چلے میرا اگر تو میں اکیلا ہو جاؤں
لے کے جاؤں کہاں احساس وفاداری کو
دل تو کہتا ہے کہ میں بھی ترے جیسا ہو جاؤں
ہو کسی طور تو دنیا کی توجہ مجھ پر
ایک دو پل کے لیے میں بھی تماشا ہو جاؤں
دل کی مجبوری عجب چیز ہے ورنہ جاویدؔ
کون چاہے گا بھلا خود کہ میں رسوا ہو جاؤں
غزل
میں بھی آگے بڑھوں اور بھیڑ کا حصہ ہو جاؤں
جاوید نسیمی