میں بام و در پہ جو اب سائیں سائیں لکھتا ہوں
تمام شہر کی سڑکوں کی رائیں لکھتا ہوں
طویل گلیوں میں خاموشیاں اگی ہیں مگر
ہر اک دریچے پہ جا کر صدائیں لکھتا ہوں
سفید دھوپ کے تودے ہی جن پہ گرتے ہیں
انہیں اداس گھروں کی کتھائیں لکھتا ہوں
ہوا کے دوش پہ رقصاں نحیف پتوں پر
بدلتے موسموں کی اطلاعیں لکھتا ہوں
میں جھنجھلاہٹوں پر ضبط کر نہیں سکتا
سڑک پہ چلتے ہوئے دائیں بائیں لکھتا ہوں
ترے خلوص نے مجھ سے وہ دشمنی کی ہے
ترے لیے تو میں اب بد دعائیں لکھتا ہوں
غزل
میں بام و در پہ جو اب سائیں سائیں لکھتا ہوں
طارق جامی