میں اپنی سوچوں میں ایک دریا بنا رہا تھا
جو ٹوٹی پھوٹی سی کشتیوں کو چلا رہا تھا
تمہارے جانے کے بعد بالکل ہنسا نہیں میں
شکستہ پا ہو کے اپنے اندر کو کھا رہا تھا
وہ بند کمرے میں میری یادیں پرو رہی تھی
میں بزم امکاں سے خواب جس کے اٹھا رہا تھا
مری نگہ میں یہ ایک منظر رکا ہوا ہے
کہ ایک صحرا تھا اور دریا بنا رہا تھا
وہ تیرے آنے کی تھی خوشی کہ عتیق احمدؔ
جو گھر میں قیدی تھے سب پرندے اڑا رہا تھا
غزل
میں اپنی سوچوں میں ایک دریا بنا رہا تھا
عتیق احمد