میں اپنے شہر میں اپنا ہی چہرہ کھو بیٹھا
یہ واقعہ جو سنایا تو وہ بھی رو بیٹھا
تمہاری آس میں آنکھوں کو میں بھگو بیٹھا
کہ دل میں یاس کے کانٹے کئی چبھو بیٹھا
متاع حال نہ ماضی کا کوئی سرمایہ
ندی میں وقت کی ہر چیز کو ڈبو بیٹھا
سنہرے وقت کی تحریریں جن میں تھیں محفوظ
میں ان صحیفوں کو اشکوں سے اپنے دھو بیٹھا
میں سنتا رہتا تھا جس آئنے کی سرگوشی
وہ شہر سنگ میں اپنی جلا بھی کھو بیٹھا
کسی ببول کے سائے تلے ملی جو اماں
تو اپنے پاؤں میں کانٹے بھی میں چبھو بیٹھا
وہی رہا ہے بہر طور شادماں نیرؔ
جو اپنے غم میں غم دیگراں سمو بیٹھا
غزل
میں اپنے شہر میں اپنا ہی چہرہ کھو بیٹھا
اظہر نیر