میں اپنے سائے سے سورج کھا سکتا ہوں
لیکن کیا میں اور اک سورج لا سکتا ہوں
بس اک وقت کی ڈوری ہاتھ مرے آ جائے
برسوں آگے صدیوں پیچھے جا سکتا ہوں
چاند تو اک قرطاس ہے میرے فن کی خاطر
جو بھی چاہوں اس پر نقش بنا سکتا ہوں
جھوٹ کبھی ہوتے ہوں گے ایسے دعوے پر
آج میں سچ مچ تارے توڑ کے لا سکتا ہوں
یوں ہی نہیں کہتا ہے چاند مرا ہمسایہ
اک دیوار پھلانگ کے اس پر جا سکتا ہوں
تو اپنے دل کی دھڑکن کاغذ پر لکھ دے
تجھ کو اس میں اپنا آپ دکھا سکتا ہوں
میں نے تو سب راگوں کی شکلیں دیکھی ہیں
تجھ کو دیکھ کے بھی اک راگ میں گا سکتا ہوں
میں نے دانستہ خود کو گم کر رکھا ہے
جب بھی چاہوں اپنا کھوج لگا سکتا ہوں
غزل
میں اپنے سائے سے سورج کھا سکتا ہوں
قاضی اعجاز محور