میں اپنے روئے حقیقت کو کھو نہیں سکتا
وہ خواب دیکھ لیا ہے کہ سو نہیں سکتا
تمام پیکر بد صورتی ہے مرد کی ذات
مجھے یقیں ہے خدا مرد ہو نہیں سکتا
اب اپنا غیر ہی ہو لوں کہ کوئی راہ کھلے
جو ہونا چاہتا ہوں وہ تو ہو نہیں سکتا
بڑا سہی پہ ہے نا جنس آسمان کا بیج
اسے میں اپنی زمینوں میں بو نہیں سکتا
پھنسے ہوئے ہیں خود اپنی ہی بھیڑ میں آنسو
میں رونا چاہتا ہوں اور رو نہیں سکتا
تم اپنے جسم کے کچھ تو چراغ گل کر دو
میں روشنی ہوں زیادہ تو سو نہیں سکتا
تمہارے زخم ہیں احساسؔ اور مٹی کے
میں آنسوؤں سے تو یہ زخم دھو نہیں سکتا
غزل
میں اپنے روئے حقیقت کو کھو نہیں سکتا
فرحت احساس